حرم مطہر کی لائبریری ( قرائن اور منابع کےتحت ) تیسری صدی ہجری کے اواخر میں وجود میں آئی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اصحاب اہلبیت علیہم السلام کا اس شہر میں وجود اور بہت سے امام زادگان اور اہل علم حضرات کا اس شہر کی طرف ہجرت کرنا اس شہر کی علمی مرکزیت کا سبب بنا. خاص کرصفوی حکومت کا قیام اور حرم مطہر کی محوریت میں علمی مراکز اور مدارس کا قیام ، علمی محافل اور مجالس کا انعقاد اس شہرکےعلمی وقار کے بڑہانے میں بہت مؤثر ثابت ہوا اور مخیرین حضرات کی طرف سے اہداء کی گئی کتابیں وقف جیسی سنت حسنہ کے وجود میں آنے کا سبب بنی.
اور یہی امر حرم مطہر کی لائبریری کے وجود میں آنے کا سبب بنا. 1331 ش حرم مطہر کی تاریخ کا سنہری سال ہے جس میں حرم مطہر کے متولی (مرحوم حاج سیدابوالفضل ) نے 1500 کتب خطی اور ڇ ڍڍمطبوعہ کتابیں حرم مطہر کو ہدیہ کیں اور یہ تعداد 1355ش میں 12000 کتابوں تک جا پنہچی ڇ اس وقت حرم مطہر کی لائبریری دوسری منزل پر واقع تھی.
حرم مطہر کی لائبریری انقلاب اسلامی کے بعد
ولایت فقیہ کے الہی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسلامی حکومت میں مراکز و محافل علمی خاص توجہ کا مرکز بنے . حرم مطہر کے متولی حضرات اور لائبریریوں کے مسئولین کا تعین ثقافتی کاموں کی ترقی کا سبب بنا .
اس وقت بہی حرم مطہر کی لائبریری کو یہ افتخار حاصل ہے کہ پورے صوبہ ( قم ) میں ہزاروں تشنگان علم کی پیاس بجھانے میں مصروف ہے. ایک بڑا ھال جس میں ہزاروں خطی اور مطبوعہ نسخہ ، انٹرنیٹ کی سہولت اور ہر روز کا اخبار موجود ہوتا ہے.
یہ لائبریری ہر روز صبح 8 سے رات 11 بجے اور چھٹی کے دنوں میں 9 بجے صبح سے شام 5 بجے تک مسلسل کھلی رہتی ہے.