موسی بن الخزرج کے ایک حصیر ی سائبان بنانے کے بعد جوسب سے پہلا گنبد فاطمہ معصومہؑ کی تربت پاک پر بنایا گیا وہ برجی شکل کا ایک قبہ تھا جو حضرت زینب بنت امام جواد علیہ السلام کے ہاتھوں اینٹ وپتھر اورچونے کےذریعہ تیسری صدی کے وسط میں بنایا گیا۔ زمانے کے گزرنے اور حضرت معصومہ کے جوار میں کچھ علوی خواتین کے دفن ہونے کے بعد اس گنبد کے پاس دوسرے دوگنبد بنائے گئے ، جس میں تیسرا گنبد حضرت زینب بنت امام محمد تقی علیہ السلام کامدفن قرار پایا ، یہ تین گنبد ۴۴۷ ھ تک باقی تھے اسی سال میر ابو الفضل عراقی (وزیر طغزل کبیر) نے شیخ طوسی کے ترغیب دلانے پر ان تین گنبدوں کے بجائے ایک بلند وبالا گنبد کو نقش ونگار کے ساتھ بنایا،جس میں ایوان اورحجرے نہ تھے یہ گنبد تمام سادات کے قبور پر محیط تھا۔
۹۶۵ ہجری میں شاہ بیگی بیگم ہمسر شاہ اسماعیل صفوی کی ہمت سے اس گنبد کو پھر سےبنایا گیاجس میں معرق کاشی استعمال ہوئی اس میں ایوان طلااور دومنارے نیز صحن عتیق بنایا گیا ، گنبد کی خارجی سطح معرق کاشی سے آراستہ ہوئی۔
۱۲۱۸ ہجری کے زمانے میں گنبد مطہر کو سونے کی اینٹیوں سے مزین کیاگیا جو ۱۳۷۹ھ ش تک باقی رہا ۱۳۸۰ ہجری ش میں گنبد کی ظاہری صورت کے نامناسب ہوجانے کی وجہ سے اور دیگر نقصانات کوکنٹرول کرنے کے لئے اسوقت کے متولی نے اس گنبد کی بنیادی تعمیر کا فیصلہ کیا پہلے سے موجود سونے کی اینٹوںکو نئی اینٹوں کےساتھ ملا کر ان کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ نصب کیا گیا اس وسیع منصوبے پر ۱۵۰۰ ملین ریال خرچ ہوئے اور یہ منصوبہ ۱۳۸۴ شمسی ہجری کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچا۔