تاریخی شواہد کی روشنی میں شہر قم اسلام سے پہلے کے آباد شہروں میں شما رکیا جاتاہے،بہت سے مؤرخین نے اس شہر کو پہلی صدی ہجری کا شہر شمار کیا ہے،شہر قم ۲۳ ہجری میں ایک اسلامی لشکر کے ہاتھوں فتح ہوا ،یہاں کے لوگ صدر اسلام سے ہی مذہب تشیع کی طرف مائل تھے ، کسی دور میں قم اصفہان کا حصہ شمار کیا جاتاتھا لیکن ۱۸۹ ہجری میں قم اصفہان سے جدا ہوکر ایک مستقل شہر کے عنوان سے پہچانا جانے لگا اور علماء ومحققین کا مرکز بننے لگا خاص طور پر حضرت معصومہ س کی وفات کے بعد اس شہر کو مزید رونق ملی تمام شیعہ اس شہر کو اپنے لئے ایک پناہ گاہ سمجھنے لگے اور حضرت معصومہ س کے روضہ کے اطراف میں آبادیاں بڑھنے لگیں تاکہ بی بی کے با برکت وجود سے فیضیاب ہو سکیں اور علماء وفضلاء اس سلسلہ میں پیش قدم رہےیہی وجہ ہے کہ زیادہ تر علماء حرم یا حرم کےنزدیکی مقامات پر درس وتدریس میں مشغول نظرآتے ہیں ،لیکن امام خمینی رضوان اللہ کی قیادت میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب نے اس شہر کو مرکز علوم دین اور مرکز انقلاب میں تبدیل کردیا ۔
ایرانی تاریخ کے مطابق ۱۹ دی ۱۳۵۶ھ شمسی ہجری میں قم کے لوگوں نے جو عظیم قیام کیا اس میں ۵۲۰ / افراد نے جام شہادت نوش کیا ۷۶۰ جانبازی کےدرجہ پر فائز ہوئے۔ یہ شہر اور اس شہر کے رہنے والے آج بھی اپنے عظیم رہبر آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی کی قیادت میں ثقافتی حملوںاور جھوٹی میڈیا کےمد مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ڈٹے ہوئے ہیں اور اللہ کے لطف وکرم سے یہی جذبہ امام زمانہ عج کے ظہور پر نور تک قائم رہے گا۔