صلہ رحمی
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک دن ایک شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے عزیز مجھ پر ظلم روا رکھتے ہیں، مجھ سے قطع رحم کرتے ہیں اور مجھے گالیاں دیتے ہیں کیا میں ان کو چھوڑدوں اور ان سے رابطہ ختم کردوں ۔۔۔؟
آپ ﷺ نے فرمایا : رابطہ ختم کرنے کی صورت میں اللہ تعالی بھی آپ سب کو چھوڑ دیگا ۔
اس شخص نے سوال کیا پھر میں کیا کروں ۔۔؟
آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے تم سے رابطہ ختم کیا ہے تم اس سے رابطہ برقرار رکھو، جس نے تم کو محروم رکھا ہے تم اس کو عطا کرو، جس نے تم پر ظلم کیا ہے تم اس کو بخش دو جب تم نے ایسا کروگے تو خدا تمہارا حامی اور ناصر ہوگا۔
جہم بن حمید نے امام صادق ؑ سے سوال کیا کہ : میرے عزیزو اقارب جو میرے ہم عقیدہ اور ہم مذہب نہیں ہیں کیا ان کا کوئی حق میری گردن پر ہے ۔؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : جی ہاں وہ تم پر حق قرابتداری رکھتے ہیں جس کو کوئی چیز ختم نہیں کر سکتی۔ اور اگر وہ تمہارے ہم عقیدہ ہوں تو وہ تم پر دو حق رکھتے ہیں ۱۔ حق صلہ رحمی ۲۔ حق اسلام ۔
( الکافی ج ۲ ص ۱۵۰ اور ۱۵۷)۔
ہمسایہ کے حقوق
عبد اللہ ابن مسعود بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ ایک شخص حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس آیا اور عرض کیا : اے رسول خدا کی بیٹی ! کیا رسول اکرمﷺ نے کوئی چیز آپ کے پاس چھوڑی ہے جسے مجھے عنایت کرسکیں ۔۔؟
حضرت زہرا علیہا السلام نے اپنی کنیز سے فرمایا کہ جاکر وہ ( ایک مخصوص) لکھی ہوئی روایت کو لے آؤ۔ کنیز گئی مگر اس کو وہ روایت نہ ملی۔ حضرت نے فرمایا : افسوس ہے تم پر دوبارہ تلاش کرو وہ تحریر میرے نزدیک حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے برابر ہے ۔ کنیز نے دوبارہ تلاش کیا اور اس تحریر کو غیر ضروری سامان کے بیچ میں پایا جس پر لکھا ہوا تھا ۔
حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں وہ مؤمن نہیں ہے جس کا ہمسایہ اس سے امان میں نہ ہو۔ ہر انسان جو خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسکو اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں کرنی چاہئے۔
حضرت امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں : اے آل محمد کے ماننے والو جان لو ! جس کا رویہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نا مناسب ہو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
(کافی ج ۲ ۔ص۔۶۳۷دلائل الامامت ص ۱)۔
نماز
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ایک دن رسول اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ بابا جان مجھے ان مردوں اور عورتوں کی جزا کے متعلق بتائیے ۔۔؟ جو نماز کو سبک اور کم اہمیت سمجھتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فاطمہ جان جو بھی نماز کو سبک اور کم اہمیت شمار کریگا اللہ تعالی اسکو ۱۵ قسم کے عذاب میں مبتلا کریگا جس میں سے ۶ عذاب دنیا میں ،۳ مرنے کے وقت، ۳ عذاب قبر میں اور ۳ عذاب قیامت سے متعلق ہیں۔
وہ ۶ عذاب جو دنیا سے متعلق ہیں مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ اللہ تعالی خیر اور برکت کو اس کی عمر سے ختم کردیگا۔
۲۔ اللہ تعالی خیر اور برکت کو اس کے رزق سے ختم کردیگا۔
۳۔ اللہ پاک نیک افراد کی نشانیوں کو اس کے چھرے سے محو کردیگا۔
۴۔ جو اعمال انجام دیگا ان کی جزا اور پاداش نہیں دی جائے گی۔
۵۔ اس کی دعا کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
۶۔ وہ مؤمنین کی دعاؤں کا حصہ نہیں ہوگا اور ان کی دعائیں اس کے حق میں مفید ثابت نہیں ہونگی۔
وہ ۳ عذاب جو مرنے کے وقت سے متعلق ہیں
۱۔ ذلت کی موت مریگا۔
۲۔ بھوکا مریگا۔
۳۔ پیاسا مریگا اور کوئی بھی چیز اس کو سیراب نہیں کرسکےگی۔
وہ ۳ عذاب جو اس کو قبر سے متعلق ہیں :
۱۔ اللہ تعالی ایک فرشتہ کو اس کے عذاب کے لئے مقرر فرمائیگا جو مسلسل اس کو عذاب کرتا رہیگا۔
۲۔ اس کی قبر تنگ اور تاریک ہوگی۔
۳۔ اس کی قبر وحشتناک ہوگی۔
وہ ۳ عذاب جو قیامت سے متعلق ہیں:
۱۔ اللہ تعالی اس پر ایک فرشتہ کو مأمور کرے گا جو اس کو صورت کے بل گھسیٹے گا اور اہل محشر اس کا تماشا دیکھیں گے۔
۲۔ اس سے حساب اور کتاب سخت لیا جایئگا۔
۳۔ نتیجہ میں وہ اللہ تعالی کی خصوصی رحمت اور محبت کا حقدار نہ ہوگا اور اسے سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔