آپ کا اسم گرامی فاطمہ ہے ، آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے ،آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام موسیٰ بن جعفرعلیہماالسلام اور آپکی مادر گرامی حضرت نجمہ خاتون ہیں۔ یہی خاتون آٹھویں امام کی بھی والدہ محترمہ ہیں لہٰذا حضرت معصومہ‏ؑ اور امام رضاؑ ایک ہی ماں سے ہیں ۔
آپ کی ولادت با سعادت پہلی ذیقعدہ ۱۷۳ ہجری‏قمری کو مدینہ‏ منورہ میں ہوئی۔
ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بچپنے ہی میں آپ اپنے شفیق باپ کے سایۂ عطوفت سے محروم ہو گئیں، آپ کے والد کی شہادت ہارون رشیدکے قید خانہ، بغداد میں ہوئی۔
باپ کی شہادت کے بعد آپ اپنے عزیز بھائی حضرت علی بن موسیٰ الرضاؑ کی آغوش تربیت میں آگئیں ۔
۲۰۰ ہجری میں مامون عباسی کے بے حد اصرار اور دھمکیوں کی وجہ سے حضرت امام ‏علی رضاؑ مدینہ سے مرو کی جانب سفر کرنے پر مجبور ہوئے ،امام نے خراسان کے اس سفر میں اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہیں لیا۔
امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے آپ نے بھی وطن کو الوداع کہا اور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی جانب روانہ ہو گئیں۔
ہر شہر اور ہر محلہ میں آپ کا والہانہ استقبال ہورہا تھا یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینبؑ کی سیرت پر عمل کر کے مظلومیت کا پیغام اور اپنے بھائی کی غربت کو مومنین اور مسلمانوں تک پہونچارہی تھیں اور بنی عباس کی فریبی حکومت سے اہلبیتؑ کی مخالفت اور دوری کا اظہار کر رہی تھیں ،یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہونچا تو کچھ دشمنان اہلبیتؑ جن کے سروں پر حکومت کا ہاتھ تھا راستہ میں حائل ہو گئے اوران بد کرداروں نے حضرت معصومہؑ کے قافلہ سے جنگ شروع کردی۔جس کےنتیجہ میں قافلے کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا یہا ں تک کہ ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہؑ کو بھی زہر دیا گیا ۔بہر کیف حضرت معصومہ اس عظیم غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہو گئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفر کو جاری رکھنا نا ممکن ہوگیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کاقصد کیا اور آپ نے پوچھا اس شہر (ساوہ)سے شہر قم کا کتنا فاصلہ ہے اس دوری کو لوگوں نے آپ سے بیان کیا تو اس وقت آپ نے فرمایا: مجھے قم لے چلواس لئے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا:شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔
اس مسرت بخش خبر سے آگاہ ہوتے ہی بزرگان قم کے درمیان ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ سب کے سب آپ کے استقبال میں دوڑ پڑے ۔موسیٰ بن خزرج جو کہ اشعری خاندان کے بزرگ تھے انھو ں نے آگے بڑھ کر آپ کے ناقہ کی مہار کو تھام لیا ۔اوربہت سےلوگ جوسواراورپیادہ تھےپروانوں کی طرح اس کاروان کے اردگرد چلنے لگے ۔
۲۳/ربیع الاول ۲۰۱ ہجری وہ عظیم الشان تاریخ تھی جب آپ کے مقدس قدم، قم کی سرزمین پر آئے ۔پھر اس محلہ میں جو آج کل میدان میر کے نام سےیاد کیا جاتا ہے ،حضرت کی سواری موسیٰ بن خزرج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی اور آپ کی میزبانی کا عظیم شرف موسیٰ بن خزرج کو مل گیا۔
جناب معصومہؑ نے صرف(۱۷) دن اس شہر میں زندگی گزاری اور ان ایام میں آپ اپنے خدا سے راز ونیاز اور اس کی عبادت میں مشغول رہیں۔
معصومہؑ کی جائے عبادت اور قیام گاہ مدرسئہ ستیہ جو آج کل”بیت النور”کے نام سے مشہور ہے جو اب معصومه قم کے عقیدتمندوں کی زیارتگاہ بنی ہوئی ہے۔
آخر کار دس (۱۰) ربیع الثانی ۲۰۱ ہجری میں قبل اس کے کہ آپ کی چشم مبارک آپ کے برادر عزیز حضرت امام رضا علیہ السلام کے چہرہ منور کی زیارت کر تی ، غریب الوطنی میں بہت زیادہ مصائب و آلام برداشت کرنے کے بعد بند ہو گئی۔
قم کی سر زمین آپ کے غم میں ماتم کدہ بن گئی قم کے لوگوں نےبہت عزت واحترام کے ساتھ آپکی تشییع جنازہ باغ بابلان میں کی اور وہاں آپ کی قبر اطہر آمادہ کی اب جو سب سے بڑی مشکل اہل قم کے لئے تھی وہ یہ کہ ایسا کون باکمال ہو سکتا ہے جو آپ کے جسم اطہر کو سپرد لحد کرے ابھی اہل قم اس مشکل کا حل سوچ ہی رہے تھے کہ ناگاہ دو نقاب پوش سوار قبلہ کی جانب سے نمودار ہوئے اور بہت جلدمجمع کے قریب آئے نماز جنازہ پڑھنے کے بعد ان میں سے ایک بزرگوار قبر میں اترے اور دوسرے بزرگوار نے جسم اطہر کو اٹھایا اور اس قبر میں اترے ہوئے بزرگوار کے حوالہ کیا تاکہ اس نورانی پیکر کو سپرد خاک کریں ۔
یہ دو شخصیتیں جو ابھی کچھ دیر پہلے آئیں تھیں وہ تمام امور بنحو احسن انجام دیکر کسی سے کچھ کہے بغیر واپس روانہ ہو گئیں ظاهراً یہ د شخصیتیں حجت پرور دگار تھیں یعنی امام رضا اور حضرت امام محمدتقی تھے کیوں کہ معصومہ کی تجہیز وتکفین ایک معصوم ہی انجام دے سکتاہے، تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں مثلا حضرت زہراؑ کے جسم اطہر کی تجہیز وتدفین حضرت علیؑ کے ہاتھوں ا نجام پائی اسی طرح حضرت مریم کو حضرت عیسیٰؑ نے بنفس نفیس غسل دیا ۔
حضرت معصومہؑ کے جسم اطہر کی تدفین کے بعدموسیٰ بن خزرج نے ایک حصیری سائبان آپکی قبر اطہر پر بنایا ا سکے بعد حضرت زینب جو امام محمدتقیؑ کی بیٹی تھیں ۲۵۶ ہجری میں پہلا گنبد اپنی عظیم پھوپھی کی قبر اطہر کے لئے تعمیر کرایا ۔
اسی وقت سے یہ عظیم خاتون کی تر بت پاک ،محبان اہلبیتؑ کے لئے قبلۀ عقیدت ہو گئی جہاں نماز مودت ادا کرنے کےلئے محبان اہلبیتؑ جوق در جوق آنے لگے عاشقان ولایت وامامت کے لئے یہ بارگاہ دارالشفاء ہو گئی جس میں مضطرب دلوں کو سکون ملنے لگا مشکل کشا کی بیٹی لوگوں کی مشکل کشائی کرتی رہیں اور نا امیدوں کے لئے مرکز امید بن گئیں۔