حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی ولادت ۱۲۸ ہجری میں مدینہ منورمیں اس وقت ہوئی جب حکومت امویوں سے عباسیوں کی طرف منتقل ہو رہی تھی آپ کو متعدد بار سلاطین جور نے قید میں رکھا ۔ آپ کی امامت کا زمانہ عباسی حکومت کے اقتدار کا زمانہ تھا اور شیعوں کے لئے انتہائی سخت اور دشوار زمانہ تھا جس میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام خود بھی اور اپنے ماننے والوں کو بھی اپنے تحفظ کا حکم دیتے تھے ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے وکالت کے شعبے کو مضبوط کیا اور مختلف علاقوں میں اپنے وکیل معین کئے۔ آپ کے آغاز امامت میں کچھ جدید فرقے پیدا ہوئے جن میں اسماعیلیہ ، فطحیہ اور ناووسیہ ہیں اور آپ کی شہادت کے بعد واقفیہ فرقہ وجود میں آیا۔
ایک چیز جو سب ائمہ اہل بیت علیہم السلام میں مشترک ہے وہ اللہ جل سبحانہ کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں مناجات کرناہے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بھی اپنے آباؤ و اجداد کی طرح بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے اسی وجہ سے آپ کو لقب عبد صالح سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔آپ زندان میں اتنی عبادت کیا کرتے تھے کے زندانبان بھی آپ کی عبادت سے متاثر ہو جاتے تھے۔ شیخ مفید آپ کو اپنے زمانے کے عابد ترین انسان سے یاد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام اس قدر خوف خدا سے گریہ کرتے تھے کہ آپ کے محاسن آنسوؤں کی وجہ سے تر ہو جاتے تھے امام علیہ السلام اس دعا کو کثرت سے ورد کیا کرتے تھے
عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِكَ فَلْيَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ
اور اس دعا کو امام علیہ السلام سجدے میں زیادہ پڑہتے تھے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسَابِ
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کا تواضع
امام موسی کاظم علیہ السلام ایک دیہاتی سیاہ پوست فقیر انسان کے پاس سے گذرے تو آپ علیہ السلام نے اس کو سلام کیا اور کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ گئے اور اس سے احوال پرسی کرنے لگے۔
امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اگر کوئی حاجت ہو تو بیان کرو تاکہ میں وہ حاجت پوری کروں۔
امام کاظم علیہ السلام کے اصحاب نے آپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یابن رسول اللہ آپ ایسے شخص کے پا س بیٹھ کر اس کی احوال پرسی کر رہے ہیں جو آپ کا محتاج ہے جبکہ آپ اس کے محتاج نہیں۔
امام کاظم علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : وہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے اور قرآن کے حکم کے مطابق وہ ہمارا دینی بھائی ہے وہ اللہ کی زمین پر زندگی بسر کر رہا ہے اور ہم ایک باپ یعنی آدم علیہ السلام سے ہیں اور ہمارا دین بھی ایک ہی ہے یعنی اسلام ۔ اور ہو سکتا ہے ایک دن خدا ہم کو اس کا محتاج بنادے لہذا ہمیں اپنے آپ پر فخر کرنے کے بجائے تواضع کرنی چاہئے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ( اقربکم منی غدا فی الموقف ۔۔۔ احسنکم خلقا و اقربکم من الناس )
کل قیامت کے دن مجھ سے نزدیک تر وہ ہوگا جو لوگوں کے ساتھ زیادہ خوش اخلاق ہوگا۔


تحف العقول باب امام موسی کاظم علیہ السلام
تاریخ بغداد، بغدادی، ج۱۳، ص۳۳-۳۲.
بحار الانوار ج ۷۷ ص ۱۵۰