آپ کی ولادت ۱۱ ذی القعدہ ۱۴۸ ھ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ جناب نجمہ ہیں۔ آپ ۱۸۳ میں اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد مسند امامت کی ذمہ داری آپ کے کاندہوں پر آن پڑی ۔ امام محمد تقی علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ آپ کے والد بزگوار کو رضا کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں اور رسول اکرم ﷺ اور ائمہ علیہم السلام زمین پر آپ سے راضی ہیں اور امام رضا کو امامت کے لئے پسند کیا ہے۔ آپ کے اخلاق پسیندیدہ کی وجہ سے دشمن اور دوست دونوں ااپ سے راضی تھے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمد ﷺ کے نام سے بھی مشہور تھے۔ آپ کے دوسرے القاب میں غريب الغرباء ، شمس الشموس ، معين الضعفاء ، ضامن آهو ، صابر ، رضى ، وفى ، فاضل ، صديق و غیرہ شامل ہیں۔
عباسی خلیفہ مامون نے آپ کو مدینہ سے زبردستی خراسان کی طرف بلوایا اور اپنی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔ امام (ع) نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کی خاطر مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت کے معترف ہوئے آپ کی امامت تین عباسی خلفاء کے مصادف تھی امامت کےپہلے ۱۰ سال ہارون رشید کا زمانہ ۵ سال امین اور آخری ۵ سال مأمون کے زمانہ خلافت کے مصادف تھی ۔

آپ ؑ کا زہد

امام ؑ نے دنیا کی زیب وزینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوں نے دنیا میں زہداختیارکیا،آپ ؑ کے جدبزرگوار امیرالمومنین ؑ نے اس دنیاکو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیاجاسکتا۔محمد بن عباد نے امام کے زہدکے متعلق روایت بیان کی ہے :امام ؑ گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پربیٹھتے تھے ،آپ سخت کھر درا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہوجاتے تھے ۔دنیا میں زہد اختیار کرنا امام ؑ کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا،تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام ؑ کو ولی عہد بنایاگیا تو آپ ؑ نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا،حکومت وسلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی،اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی، آپ کسی بھی ایسے مظاہرے سے شدیدکراہت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت وبادشاہت کا اظہار ہوتا، چنانچہ آپ فرماتے تھے :لوگوں کاکسی شخص کی اقتداکرنا اس شخص کیلئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کیلئے ذلت و رسوائی ہے ۔

آپ ؑ کے علوم کی وسعت

امام رضا ؑ اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے لوگوں کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی۔ہروی آپ کے علوم کی وسعت کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ :میں نے علی بن موسی رضا ؑ سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا، مامون نے متعددجلسوں میں علماء ادیان ،فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آگئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیاہو،اور میں نے آپ ؑ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پا س بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا ‘‘۔ابراہیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا ؑ کونہیں دیکھامگریہ کہ آپ ؑ نے ہر سوال کا جواب دیا ہے ۔،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھااور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتاتھااورآپ ؑ اس کا جواب عطافرماتے تھے ۔مامون سے مروی ہے :میں اُن ( امام رضا ؑ ) سے افضل کسی کو نہیں جانتا۔ بصرہ، خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پردلالت کرتے ہیں ۔دنیاکے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ ؑ پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفد نے امام ؑ سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔ لوگوں کا آپ کی طرف مائل ہونا ماموإ کی لئے سخت تھا جس کی وجہ سے مامون آپ کو لوگوں سے دور رکھنے پر مجبور ہوگیاکہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ مامون سے بدظن نہ ہوجائیں۔

شہادت

بالآخر مامون نے جب اس بات کو محسوس کیا کہ لوگ امام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جو مامون کی حکومت کے لئے خطرہ کا سبب تھا تو اس نے آپ کو مسموم کیا جس سے آپ کی شہادت واقع ہوئی شیعوں کے نزدیک مشہور قول کی بنا پر آپ کی شہادت ۳۰ صفر 203 ہجری کو ہوئی۔

بحار الانوار
منتہی الآمال ج ۲ ص ۳۱۲
الارشاد ۔ شیخ مفید