شیعوں کے یہاں مشہور قول کی بنا پر حضرت فاطمہؑ  بعثت کے پانچویں سال سنہ احقافیہ ( سورہ احقاف کے سال نزول) میں متولد ہوئیں۔ شیخ مفید  و کفعمی نے آپؑ کی ولادت کو بعثت کے دوسرے سال میں ذکر کیا ہے۔ اہل سنت کے مطابق آپؑ کی ولادت بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی ہے۔

منابع شیعہ میں آپ کی ولادت کی تاریخ 20 جمادی الثانی ذکر ہوئی ہے۔

آپؑ کی زندگی کے ابتدائی ایام کے بارے میں تاریخی حوالہ جات کی کمی کی وجہ سے، دقیق معلومات حاصل کرنا مشکل ہے۔ تاریخی اسناد کے مطابق،  حضرت زہرا نے اسلام  کی دعوت کے علنی ہونے کے بعد،  مشرکین کی طرف سے اپنے بابا پر کئے جانے والے تشدد اور ناروا سلوک کو نزدیک سے دیکھا۔ اس کے علاوہ بچپن کے تین سال آپؑ نے شعب ابی طالب میں گزارے، جس دوران مشرکین مکہ نے  بنی ہاشم اور حضورؐ کے چاہنے والوں کا سوشل بائیکاٹ کر رکھا تھا۔     اسی طرح آپؑ بچپن میں ہی اپنی والدہ کی شفقت اور اپنے بابا رسول خدا کے چچا اور اہم حامی جناب ابو طالب کے سایہ شفقت سے محروم ہوئیں۔ اس کے علاوہ قریش کا  پیغمبر اکرم کو قتل کرنے کا منصوبہ، پیغمبرؐ کا رات کے وقت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور آپؑ کا بنی ہاشم کی بعض دیگر خواتین سمیت حضرت علی کے ہمراہ مدینہ ہجرت کرنا، حضرت فاطمہؑ کے بچپن میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔

شیعہ اور اہل سنت روائی، تفسیری اور تاریخی مصادر میں حضرت زہراؑ کے متعدد فضائل ذکر ہوئے ہیں۔ ان فضائل میں سے بعض کا منشا قرآن کریم  کی مختلف آیات جیسے آیہ تطہیر اور آیہ مباہلہ  ہیں۔ اس قسم کے فضائل میں آیات کا شان نزول  تمام اہلبیت کے لئے ہے جن میں حضرت زہراؑ بھی شامل ہیں۔ آپ کے بعض فضائل ا حادیث میں بھی نقل ہوئے ہیں جن میں بضعت الرسول اور مُحَدَّثہ ہونا ہیں۔

عبادت

مَن اَصعَدَ اِلي اللهِ خالِصَ عِبادَتِه اَهبَطَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ اِلَیهِ اَفضَلَ مَصلَحَتِه 

ترجمہ: جو اپنی خالص عبادت کو اللہ کی طرف بھیجے تو اللہ تعالی اپنی بہترین مصلحت اس کی طرف نازل کرے گا۔

عدة الداعی، ص 233

حضرت فاطمہ زہراؑ بھی اپنے والد پیغمبر اکرم  کی طرح خدا کی عبادت سے شدید لگاؤ رکھتی تھیں۔ اسی بنا پر آپ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ نماز اور خدا کے ساتھ راز و نیاز میں بسر کرتی تھیں۔بعض مصادر میں آیا ہے کہ بعض اوقات جب حضرت فاطمہؑ قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوتی تھیں تو اس دوران آپ غیبی امداد سے بہرہ مند ہوتی تھیں۔ جیسے: ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک دن سلامان فارسی نے دیکھا کہ حضرت زہراؑ چکی کے پاس قرآن کی تلاوت میں مصروف تھیں اور چکی خود بخود چل رہی تھی، سلمان فارسی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کو پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے فرمایا: … خداوند عالم نے حضرت زہراؑ کیلئے چکی چلانے کے لئے جبرئیل امین کو بھیجا تھا۔ طولانی نمازیں پڑھنا، راتوں میں عبادت کرنا، دوسروں منجملہ پڑوسیوں کے لئے دعا کرنا، روزہ رکھنا، شھدا کی قبور کی زیارت کرنا؛ آپ کے نمایاں معمولات زندگی تھے کہ جس کی اہل‌ بیتؑ، بعض صحابہ اور  تابعین نے تائید کی ہے۔یہی سبب ہے کہ دعا و مناجات کی کتابوں میں بعض نمازوں، دعاؤں اور تسبیحات وغیرہ کی نسبت ان کی طرف دی گئی ہے۔

خدا و رسول کے نزدیک آپ کا  مقام و منزلت

شیعہ و سنی علما اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زہراؑ کے ساتھ دوستی اور محبت کو خدا نے مسلمانوں  پر فرض قرار دیا ہے۔ علما آیہ مودت  کے نام سے مشہور سورہ شوری کی آیت نمبر 23 سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہؑ کی دوستی اور محبت کو فرض اور ضروری سمجھتے ہیں۔ آیۂ مودت میں پیغمبر اکرم  کی رسالت و  نبوت کی اجرت آپؐ کے اہلبیت  سے مودت و محبت کرنے کو قرار دیا گیا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس آیت میں اہل‌ بیتؑ سے مراد فاطمہؑ، علی  اور حسنینؑ ہیں۔  آیۂ مودت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ سے کئی احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق  خداوند عالم فاطمہؐ کی ناراضگی سے ناراض اور آپؑ کی خوشنودی سے خوش ہوتا ہے۔

جنۃ العاصمہ کے مولف نے اپنی کتاب میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضرت فاطمہؑ کی خلقت کو وجہ تخلیق افلاک قرار دیا گیا ہے۔ یہ احادیث قدسیہ لولاک کے نام سے مشہور ہے جو پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے جس کے مطابق: افلاک کی خلقت پیغمبر اکرمؐ کی خلقت پر موقوف ہے، آپؐ کی خلقت حضرت علیؑ کی خلقت پر موقوف ہے اور آپ دونوں کی خلقت حضرت فاطمہؑ کی خلقت پر موقوف ہے۔بعض علما اس حدیث کی سند کو مخدوش قرار دیتے ہیں لیکن اس کے مضمون کو قابل توجیہ مانتے ہیں۔

پیغمبر اکرمؐ حضرت فاطمہؑ کو بہت مانتے تھے اور دوسروں کی بنسبت سے ان سے زیادہ محبت اور احترام کرتے تھے۔  حدیث بضعہ نامی مشہور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے فاطمہؑ کو اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے فرمایا: جس نے بھی اسے ستایا گویا اس نے مجھے ستایا۔ اس حدیث کو متقدمین محدثین  جیسے شیعہ علماء میں شیخ مفید  اور اہل سنت علماء میں احمد ابن حنبل  نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے۔

خواتین کی سردار

شیعہ سنی دونوں طریقوں سے منقول متعدد احادیث میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ  بہشت کی تمام عورتوں کی سردار اور امت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔

مباہلہ میں شریک واحد خاتون

صدر اسلام کی مسلمان خواتین میں سے حضرت فاطمہؑ وہ اکیلی خاتون ہیں جنہیں پیغمبر اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کیلئے انتخاب فرمایا تھا۔ یہ واقعہ قرآن مجید  کی آیہ مباہلہ میں ذکر ہوا ہے۔ تفسیری، روائی اور تاریخی مصادر کی روشنی میں آیت مباہلہ اہلبیت پیغمبر کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمہؑ، امام علی امام حسن اور  امام حسیناس واقعے میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مباہلے کیلئے گئے اور ان اشخاص کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لیا۔

نسل پیغمبر اکرمؐ کا تسلسل

پیغمبر اکرمؐ کی نسل کا تسلسل اور ائمہ معصومین کا تعین حضرت زہراؑ کی نسل سے ہونا آپ کی فضیلت میں شمار کیا گیا ہے۔بعض مفسرین حضرت زہراؑ کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی نسل کے تسلسل کو سورہ کوثر میں مذکور خیر کثیر کا مصداق قرار دیتے ہیں۔

حوالاجات

 جمعی از محققین، فرهنگ ‌نامہ علوم قرآن، ‏‫۱۳۹۴ش، ج۱، ص۲۴۴۳. کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج1، ص458؛ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص793؛ طبری امامی، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ج79، ص134؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، قم، شریف الرضی، ص143؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج1، ص290؛ ابن ‌شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 1376ھ، ج3، ص132۔ مفید، مسار الشریعہ فی مختصر تواریخ الشریعۃ، 1414ھ، ص54؛ کفعمی، المصباح، 1403ھ، ص512۔ ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج1، ص133. ج8، ص19؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص403؛ ابن ‌عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 1412ھ، ج4، ص1899۔ مفید، مسار الشریعہ، ۱۴۱۴ق، ص۵۴؛ طوسی، مصباح المتهجد، ۱۴۱۱ق، ص۷۹۳؛ طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۴. کیا آج کی ایک مسلمان خاتون حضرت زہراءؑ کو نمونہ عمل بنا سکتی ہے؟، پایگاہ خبری تحلیلی مہرخانہ، تاریخ انتشار: 11-02-1392 شمسی، تاریخ بازدید: 17-12-1395 شمسی ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص163۔

 یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص35۔ احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، بیروت، ج1، ص368؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ج1، ص163۔ محقق سبزواری، نمونہ بینات در شأن نزول آیات از نظر شیخ طوسی و سایر مفسرین خاصہ و عامہ، 1359 شمسی، ص173-174

wiki shia